بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، پروفیسر جان میئر شیمر نے 'جج انڈریو ناپولیتانو' پروگرام کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست کے حکام کی طرف سے جنگ دوبارہ شروع کرنے کی بات "تزویراتی لحاظ سے نامعقول ہے۔"
میئر شیمر نے اس بارے میں زور دے کر کہا: "میرا خیال ہے کہ نہ تو امریکی اور نہ ہی اسرائیلی ایران کے ساتھ ایک اور عنقریب جنگ شروع کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔"
پروگرام کے میزبان نے 'جج ناپولیتانو' دیگر ماہرین امریکی میرینز کے سابق افسر (Scott Ritter) اور سی آئی کے سابق اہلکار لیری جانسن (Larry Johnson) کے بیانات کی یاددہانی کرائی جنہوں نے کہا تھا کہ ایران کے میزائل حملوں میں "اسرائیل کا ایک تہائی حصے کو شدید نقصان پہنچا"، اور میئر شیمر سے ایران کے خلاف صہیونی وزیر جنگ دھمکیوں اور ہرزہ سرائیوں کے بارے میں پوچھا۔
میئر شیمر نے صہیونی وزیر جنگ اسرائیل کاٹز کی طرف سے جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی رہنما اس طرح کے تزویراتی عبقری (Strategic Genius) نہیں ہیں جیسے انہیں ہونا چاہئے تھا اور انہوں نے خود کو بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کاٹز بھی اس قیادتی گروپ کا سب سے ذہین فرد نہیں ہے۔ میرے خیال میں جب وہ ایران کے خلاف کارروائی کی بات کرتا ہے تو وہ ایسے دلائل پیش کرتا ہے جو تزویراتی لحاظ سے معقول اور منطقی نہیں ہیں۔"
میئر شیمر نے یاد دہانی کرائی کہ "ایران میں بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ تہران کو جنگ بندی سے اتفاق نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ وہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران طاقت کی پوزیشن میں تھا، اور جتنی دیر تک جنگ جاری رہتی، خاص طور پر جب یہ فرسودہ کردینے والی طویل جنگ میں بدل جاتی اتنی ہی ایرانیوں کی حالت اسرائیلیوں کے مقابلے میں مزید بہتر ہوتی۔"
انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "البته، داستان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسرائیلیوں نے امریکیوں سے کہا کہ 'اس جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔' اسرائیلیوں نے سمجھ لیا کہ وہ فرسودہ کردینے والی جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ایرانیوں کے پاس بہت سے میزائل تھے اور یہ میزائل اپنے ہدف تک پہنچ رہے تھے۔"
میئر شیمر نے ایران کی طاقت پر زور دیتے ہوئے کہا: "اسرائیل ایک ڈاک ٹکٹ کے سائز جتنا ہے، اور ایران جیسے ملک مقابلے میں، اور ایران کے لئے ـ جیسا کہ اسکاٹ رٹر اور لیری جانسن نے بھی کہا ہے ـ اسرائیل جیسی چھوٹی ریاست کو نقصان پہنچانا بہت آسان ہے۔ اسی بنا پر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ کہ اسرائیل میں کچھ لوگ جنگ دوبارہ شروع کرنے کی بات کیوں کر رہے ہیں۔"
واضح رہے کہ صہیونی ریاست نے 13 جون 2025ع کو ایران پر ـ اعلان کئے بغیر ـ دہشت گردانہ جارحیت کا آغاز کیا اور ملک کے کئی مقامات کو نشانہ بنایا۔ تہران نے اس جارحیت کا انتہائی مضبوط جواب دیا اور صہیونی ریاست پر زبردست میزائل حملے کئے۔ یہ جنگ 12 دن تک جاری رہی اور بالآخر صہیونیوں اور امریکیوں نے جنگ بندی کی بھیک مانگی اور ثالثوں کا دامن پکڑا اور یہ جنگ ایران کی عائد کردہ شرائط پر وقتی طور پر بند ہوئی۔
جان میئر شیمر نے غزہ کی پٹی کے اندر نام نہاد 'انسانی زون' (Humanitarian Zone) بنانے کے بارے میں ـ جس کو میزبان (جج ناپولیتانو] نے 'سرکاری حراستی مرکز' کا عنوان دیا ـ صہیونی وزیر جنگ کے موقف کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: "اسرائیلیوں کے لب و لہجے واقعی حیران ہونا چاہئے، یہ مکمل طور پر استبدادیت پر مبنی اور بہت آمرانہ ہے۔ وہ فلسطینیوں کی 'رضاکارانہ منتقلی' کی بات کرتے ہیں، گویا فلسطینی رضاکارانہ طور پر جانے والے ہیں۔ وہ ایک انسانی کیمپ کی بات کرتے ہیں، گویا یہ واقعی ایک انسانی کیمپ ہے۔"
میئر شیمر نے ـ صہیونی ریاست کا ہٹلر کی سرکردگی میں جرمن نازی حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے ـ کہا: "جیسے جیسے وقت گذرتا جا رہا ہے، میں یہ کہنے میں بے چینی اور ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ سچ ہے کہ 'اسرائیلی نازیوں کی طرح ہو گئے ہیں'، ان کی زبان اور طرز عمل واقعی شرمناک ہے اور یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ایک یہودی ریاست اس طرح کا برتاؤ کرے گی؛ اسرائیلی ریاست بالکل 1930 اور 1940 کی دہائیوں کے نازی جرمنی (تیسری رائخ = عظیم تر جرمنی = Großdeutsches Reich) کی طرح! ہے؛ وہ فلسطینیوں کی رضاکارانہ منتقلی کی بات کرتی ہے! گویا فلسطینی اپنی مرضی سے اس عقوبت خانے میں چلے جائیں گے! وہ ایک انسانی کیمپ کی بات کر رہے ہیں، جو گویا حقیقت میں بھی ایک انسانی کیمپ پے"۔
اسرائیلی وزیر جنگ نے کہا ہے کہ صہیونی ریاست غزہ کی پوری آبادی کو ایک نام نہاد "انسان دوست شہر" میں جمع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو اسرائیل کے کہنے کے مطابق، رفح کے کھنڈرات پر تعمیر کیا جائے گا۔
اس تجویز کے مطابق فلسطینیوں کو لڑائی کے دوران علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ اسرائیلی فوج بھی 'مبینہ طور پر' اس منصوبے کے خلاف ہے اور اسے "ناقابل عمل" قرار دیتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی اس منصوبے کو 'پاگل پن' قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ